امریکی فوجوں کا انخلا اور انٹیلی جنس کی مشکل

IQNA

امریکی فوجوں کا انخلا اور انٹیلی جنس کی مشکل

17:08 - June 11, 2021
خبر کا کوڈ: 3509525
امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں انٹیلی جنس حاصل کرنا اور ضرورت پڑنے پر کارروائی کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا
افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن گیارہ ستمبر مقرر کی گئی ہے اور سی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں انٹیلی جنس حاصل کرنا اور ضرورت پڑنے پر کارروائی کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ اس مقصد کیلئے امریکہ کو ایک اڈے کی ضرورت ہے جو کہ افغانستان کے قریب واقع ہو جہاں سے کارروائی آسان ہوسکے۔
 
امریکہ کے سامنے اس اڈے کی لوکیشن کیلئے تین آپشنز ہیں:
1۔ پاکستان،
2۔ خلیج فارس میں بحری بیڑے کااستعمال
3۔ سابقہ سوویت یونین کے کسی خطے میں امریکی فوجی اڈے کا قیام۔
 
خلیج فارس میں پہلے سے ہی بحری بیڑہ موجود ہے لیکن یہاں سے ڈرون کی فلائیٹ افغانستان پہنچنے کیلئے 9 گھنٹے لیتی ہے۔ اگر کوئی کارروائی کرنی پڑے تو اس کیلئے نو گھنٹے کی مدت بہت زیادہ ہے اور ٹارگٹ حاصل کرنے کا امکان تقریباً صفر۔ اس کے ساتھ ساتھ مڈل مین کے ساتھ نیگوشی ایٹ وغیرہ کرنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔
 
روس کے ساتھ امریکی تعلقات اس قابل نہیں کہ روسی صدر پیوٹن امریکہ کو اپنے زیراثر کسی خطے میں امریکی اڈہ قائم کرنے دے۔
امریکی فوجوں کا انخلا اور انٹیلی جنس کی مشکل
 
تیسری آپشن پاکستان تھی۔ تاہم پاکستان نے امریکہ کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ ہر قسم کی انٹیلی جنس اور معلومات کو پاکستان کے ساتھ  شئیر کرنا ہوگا، کسی قسم کی کارروائی کیلئے پاکستان کی اجازت درکار ہوگی، کارروائی کرنے کیلئے ٹیکنالوجی پاکستان کو فراہم کرنا ہوگی اور اگر پاکستان اس انٹیلی جنس سے مطمئن ہوا کہ وہ واقعی کسی دہشتگرد کے نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے ہے، تو پھر پاکستان خود کارروائی کرے گا۔
 
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی سے نہیں روکے گا۔ یہ وہ گروہ ہیں جو بھارت کی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔
 
امریکہ کیلئے یہ شرائط تسلیم کرنا ناممکن ہے کیونکہ آج تک اس نے کبھی کسی ملک سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پاکستان نے امریکہ کیلئے مزید مشکل بناتے ہوئے یہ کہا کہ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہوگا اور باقاعدہ دستاویز تیار کی جائے گی تاکہ خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی کورٹس میں رجوع کیا جاسکے۔
 
سی آئی چیف اس مشکل صورتحال کو نارملائز کرنے کیلئے اپریل کے مہینے میں پاکستان آیا تھا لیکن عمران خان نے اس سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ پھر اس نے آئی ایس آئی چیف اور آرمی چیف سے ملاقات کی کوشش کی، لیکن آرمی چیف نے بھی ملاقات سے انکار کردیا۔ 
آئی ایس آئی چیف سے بیس منٹ کی ملاقات ہوئی جس میں سوائے رسمی گفتگو کے، اور کوئی بات نہ ہوسکی۔
اس دورے کی ناکامی کے بعد امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان سے رابطہ کیا لیکن ایک مرتبہ پھر اس کی عمران خان سے بات نہ ہوسکی۔۔۔
 
تو مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ایک وقت ہوتا تھا جب امریکہ انگلی کا اشارہ کرتا تھا اور پاکستانی حکمران بھاگم بھاگ امریکہ پہنچ جایا کرتے تھے۔آج اللہ کی مہربانی سے یہ وقت آگیا ہے کہ دنیا کے دو طاقت ور ترین ادارے یعنی سی آئی اے اور پینٹاگون کے چیفس پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں اور ہم انہیں لفٹ نہیں کروا رہے۔۔
 
بے شک جو قوم غیرتمند حکمران منتخب کرتی ہے، اللہ اس قوم کی عزت بحال کرنا شروع کردیتا ہے۔۔۔۔
نظرات بینندگان
captcha