ایکنا- خبررسںاں ادارے المیادین، کے مطابق ڈنمارک اور سوئیڈن میں مسلسل قرآن سوزی کے واقعات سے صہیونی رژیم کے ہاتھ واضح ہورہا ہے۔
سوئیڈن میں سلوان مومیکا جس پر موساد کے جاسوس ہونے کا شبہ ہے انہوں نے واضح انداز میں کہا ہے: « میں چاہتا ہوں کہ دکھا دو کہ قرآن ایٹمی اسلحے سے زیادہ خطرناک ہے. چاہتا ہوں کہ اس کتاب پر پابندی لگے یا اس میں سے قتل کی آیات کو نکال دیا جائے.»
اس بات کو صہیونی رژیم دسیوں سال قبل کہا چکا ہے.
ڈیویڈ بن گوریون، پہلے صہیونی صدر نے کہا تھا کہ ہم انقلاب یا ڈیموکریسی سے نہیں ڈرتے ہم صرف اسلام سے ڈرتے ہیں۔
سابق صہیونی وزیراعظم شیمون پرز نے بھی کہا تھا: جب تک اسلام کے ہاتھوں میں تلوار ہے اس وقت تک امن نہیں آسکتا، جب تک اسلام کی تلوار غلاف میں نہیں جاتی ہم مطمین نہیں ہوسکتے.
اس کے علاوہ گذشتہ کئی سالوں سے شهر الخلیل میں کئی بار قرآن مجید کو جلانے یا کچرے میں ضائع کرنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں.
ڈنمارک اور سوئیڈن میں شدت پسندوں اور صہیونی رژیم میں تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں. ان گروپوں کے سربراہ کئی بار اسرائیل کے دوروں پر اس رژیم کی حمایت کرچکے ہیں۔
ان واقعات کے باوجود صہیونی رژٰیم یورپی ممالک میں مسلمان رہنماوں کی موجودگی اور فعالیت کو محدود کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے کہ انکی فعالیت سے یورپی ممالک کی اسرائیلی حمایت کو دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔
بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ قرآن سوزی کے واقعات کا ایک مقصد یورپ میں اسلام فوبیا کو بڑھانا اور یورپی و اسلامی ممالک میں تعلقات کو بگاڑنا ہے۔/
4160805